قاسم سلیمانی کی ہلاکت: ’ایرانی جنرل پر امریکی حملہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھا‘

اقوام متحدہ کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ وہ امریکی حملہ جس میں ایران کے پاسداران انقلاب کے جنرل قاسم سلیمانی ہلاک ہوئے تھے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی تھا

جنرل سلیمانی اس سال جنوری میں عراق میں بغداد کے ہوائی اڈے کے قریب نو دیگر افراد کے ساتھ امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے تھے

ماورائے عدالت ہلاکتوں کے بارے میں اقوام متحدہ میں کی خصوصی نمائندہ ایگنس کالامرڈ نے کہا ہے کہ امریکہ ایسا کوئی ثبوت فراہم کرنے میں ناکام رہا ہے کہ انسانی جانوں کو کوئی ایسا فوری خطرہ موجود تھا جو اس حملے کا جواز بنا

یہ بھی پڑھیے
قاسم سلیمانی کا جنازہ پڑھانے والے پاکستانی کون ہیں؟

قاسم سلیمانی کی ہلاکت اور ذہن میں گردش کرتے سوالات

قاسم سلیمانی کی موت پر ایرانی کیا کہہ رہے ہیں؟

امریکی وزارتِ خارجہ نے ایگنس کالامرڈ پر الزام لگایا ہے کہ وہ دہشت گردوں کو شہ دے رہی ہیں۔

گزشتہ ہفتے ایران نے جنرل سلیمانی کو قتل کرنے اور دہشت گردی کرنے کے الزام میں امریکی صدر سمیت 35 افراد کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے تھے

اقوام متحدہ کی رپورٹ کیا کہتی ہے
ایگنس کالامرڈ نے اپنی رپورٹ جمعرات کو جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے سامنے پیش کی

ان کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امریکہ نے ایسا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جس سے ظاہر ہو سکے کہ جنرل سلیمانی کسی ایسے حملے کی تیاری کر رہے تھے جس میں امریکی مفادات کو نشانہ بنایا جانا تھا، خاص طور پر عراق میں، جس کی بنا پر ان کو ہلاک کرنے کی کارروائی ضروری ہو گئی تھی اور جو ان کے قتل کا جواز بن سکے

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’جنرل سلیمان شام اور عراق میں ایران کی حکمت عملی اور کارروائیوں کے سربراہ تھے۔ لیکن انسانی جانوں کو کوئی فوری خطرہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی ہلاکت غیر قانونی ہے'

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ڈرون حملہ ایک من مانی ہلاکت کے زمرے میں آتا ہے جس کی ذمہ داری بین الاقومی انسانی حقوق کے قوانین کے تحت امریکہ پر عائد ہوتی ہے

کالامرڈ نے یہ بھی کہا کہ اس کے جواب میں ایران کی طرف سے میزائل حملے بھی غیر قانونی تھے۔

جنرل سلیمانی کون تھے
ایران میں رہبرِ اعلیٰ کے بعد جنرل سلیمانی سب سے بااختیار شخصیت تصور کیے جاتے تھے

پاسداران انقلاب کی ملک سے باہر مسلح کارروائیاں کرنے والے دستوں القدس فورس کے کمانڈر ہونے کے ناطے وہ مشرق وسطی میں ایران کی پالیسیوں کے روح رواں اور معمار تھے

القدس فورس کی حفیہ کارروائیوں کی رہنمائی کرنے، مالی وسائل اور اسلحہ فراہم کرنے کے علاوہ خفیہ معلومات مہیا کرنے اور اتحادی حکومتوں اور حزب اللہ، حماس اور اسلامی جہاد جیسی مسلح تنظیموں کی معاونت کرنے کی ذمہ دارایاں وہ نبھاتے تھے

صدر ٹرمپ نے جنرل سلیمان کو دنیا بھر میں اول نمبر کا دہشت گرد قرار دیا تھا

صدر ٹرمپ نے جنرل سلیمانی پر الزام لگایا تھا کہ وہ گزشتہ 20 برس میں سینکڑوں امریکی شہریوں اور فوجیوں کو نشانہ بنانے، زخمی اور قتل کرنے کے ذمہ دار ہیں اور عراق میں گزشتہ سال دسمبر میں ایک راکٹ حملے میں ایک امریکی ٹھیکہ دار کی ہلاکت کے پیچھے بھی ان ہی کا ہاتھ تھا۔

جنرل سلیمانی کو کیسے ہلاک کیا گیا؟
ایران کے یہ اعلی ترین جنرل اس سال جنوری کی تین تاریخ کو شام سے ایک جہاز کے ذریعے بغداد پہنچے تھے۔ وہ عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاء تنظیموں کے سرکردہ اہلکاروں کے ہمراہ ہوائی اڈے سے جا رہے تھے جب ان کے قافلے کو ایک راکٹ سے نشانہ بنایا گیا جو ایک امریکی ڈرون سے داغہ گیا تھا۔

جب ان کا قافلہ امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنا اس وقت عراق میں شیعہ گروہوں کی ایک تنظیم پاپولر موبیلائزیش فرنٹ کے سربراہ عبدالمہدی مہندس بھی ان کے ہمراہ تھے۔

صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ انھوں نے اس ڈرون حملے کی منظوری دی تھی تاکہ امریکہ اور ایران کے درمیان جنگ کے خطرے کو ٹالا جا سکے۔

انھوں نے جنرل سلیمانی پر الزام لگایا کہ وہ امریکی سفارت کاروں اور فوجی اہلکاروں پر حملے کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے اس لیے انھیں ختم کر دیا گیا

پانچ دن بعد ایران نے عراق میں دو فوجی اڈوں پر جہاں امریکی فوجی موجود تھے، بلاسٹک میزائلوں سے حملہ کیا۔ ان حملوں میں کوئی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا تھا لیکن سو سے زیادہ فوجی اعصابی طور پر متاثر ہوئے تھے



جب ان کا قافلہ امریکی ڈرون حملے کا نشانہ بنا اس وقت عراق میں شیعہ گروہوں کی ایک تنظیم پاپولر موبیلائزیش فرنٹ کے سربراہ عبدالمہدی مہندس بھی ان کے ہمراہ تھے۔
امریکی صدر ٹرمپ کے گرفتاری کے وارنٹ

ایران نے چند دن قبل جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے سلسلے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے وارنٹ برائے گرفتاری جاری کیے ہیں۔

تہران میں سرکاری وکیل علی القاسی مہر نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور 35 مزید افراد کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر کیا گیا ہے اور انٹرپول سے کہا گیا ہے کہ وہ ان افراد کو گرفتار کرنے میں مدد کریں۔

تاہم انٹرپول کا کہنا ہے کہ وہ ایرانی درخواست تسلیم نہیں کرے گا

ادھر امریکہ میں صدر ٹرمپ کے خصوصی مشیر برائے ایران کا کہنا تھا کہ یہ وارنٹ جاری کرنا پروپیگنڈا ہے اور کوئی بھی اسے سنجیدہ نہیں سمجھے گا۔

مہر نیوز ایجنسی نے علی القاسی مہر کے حوالے سے بتایا کہ ’36 افراد کو قاسم سلیمانی کے قتل میں ملوٹ پایا گیا ہے۔ انھوں نے اس حملے کا حکم دیا، نگرانی کی یا اس میں شریک تھے۔‘

’ان میں امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک کے کچھ سیاسی اور عسکری حکام شامل ہیں جن کے وارنٹ برائے گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔‘

انھوں نے کہا ہے کہ ’اس فہرست میں صدر ٹرمپ سر فہرست ہیں اور ان کی گرفتاری کی کوشش ان کی صدارت ختم ہونے کے بعد بھی جاری رہے گی۔‘

ایران کے نائب وزیرِ خارجہ محسن بہادواند نے کہا تھا کہ ایرانی عدالتیں جلد ذمہ داران کے خلاف فردے جرم عائد کریں گی اور انھیں امید ہے کہ وہ ڈرون طیارہ اڑانے والوں کو بھی نامزد کر لیں گے۔

انھوں نے کہا کہ ایران ان لوگوں کو انصاف کے کٹہرے تک لانے کی کوششیں نہیں روکے گا۔

جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران میں امریکہ کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے
صدر ٹرمپ کے خصوصی مشیر برائے ایران برائن ہک کا کہنا ہے کہ ہمارے مطابق انٹرپول ایسے مقاملات میں مداخلت نہیں کرتا اور سیاسی نوعیت کے ریڈ نوٹس جاری نہیں کیے جاتے

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ سیاسی نوعیت کا ہے۔ اس کا قومی سلامتی، بین الاقوامی امن، اور استحکام کو بڑھانے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ یہ پروپگنڈا ہے اور اسے کوئی سنجیدگی سے نہیں لے رہا‘

انٹرپول نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ وہ اس حوالے سے ایرانی درخواست تسلیم نہیں کریں گے

تنظیم کا کہنا ہے کہ اپنے قواعد کے مطابق وہ کسی بھی ’سیاسی، عسکری، مذہبی یا نسل پرستانہ کارروائی میں شریک نہیں ہو سکتے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ ایران کی جانب سے وارنٹ برائے گرفتاری جاری کرنا ایک علامتی اقدام ہے تاہم اس سے صدر ٹرمپ کے لیے نفرت ظاہر ہوتی ہے۔

Comments